ایک دفعہ ایک انجینئر راستے سے جا رہا تھا کہ اس کو ایک مینڈک دکھائی دیا۔ مینڈک نے انجینئر کو دیکھا تو بولا کہ ’مجھے کس کروپلیز اگر تم مجھے کس کرو گے تو میں ایک حسین شہزادی بن جاؤں گی اور تمہارے ساتھ ایک پورا ہفتہ گزاروں گی‘۔انجینئر نے اسے اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا اور چلتا رہا۔ تھوڑی دور جا کر مینڈک نے جیب سے منہ باہر نکال کر پھر سے بولا: مجھے کس کرو تو میں شہزادی بن جاؤں گی۔ انجینئر نے اسے دوبارہ بالکل نظرانداز کر دیا۔ وہ اسی طرح اپنا راستہ ناپتا رہا۔
تھوڑا اور آگے گئے تو مینڈک کو غصہ آگیا اور اس نے بولا کہ میری بات کیوں نہیں سن رہے۔ میں تمہیں کیا کہہ رہا ہوں کہ اگر تم نے مجھے کس کیا تو میں کہانیوں کی طرح شہزادی بن جاؤں گی۔۔میں تمہارے ساتھ پورے دو ہفتے گزار لوں گی لیکن میری بات تو سنو۔ انجینئر بولا کہ تمہاری ان باتوں میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ تم لڑکی بن جاؤ گے یا میرے ساتھ وقت گزارو گے۔ لیکن میں یہ سوچ سوچ کہ خوش ہو رہا ہوں کہ اپنی انجینئر سوسائٹی کو جا کر دکھاؤں گا کہ دیکھو مجھے ایک بولنے والا مینڈک مل گیا ہے۔ وہاں ہم مل کر تمہارا چیک اپ بھی کریں گے کہ آخر تم کیسے بولتے ہو؟ ایک انجینئر ہمیشہ انوکھا ہوتا ہے، اگر کوئی نئی مشین خریدے تو اس کو کھول کر بیٹھ جاتا ہے ۔ اگر وہ مشین جلدی خراب ہو جائے تو کہتا ہے کہ اچھی نہیں بنائی گئی تھی اور اگرجلدی خراب نہ ہو توکہتا ہے کہ اس مشین میں اتنے تھوڑے فیچر تھے کہ اس میں خراب ہونے لائق کچھ تھا ہی نہیں۔ کسی نے ایک آدمی سے پوچھا کہ سول انجینئر اور میکینیکل انجینئر میں کیا فرق ہے؟ اس نے جواب دیا میکینیکل انجینئر کا کام ہوتا ہے ہتھیار بنانا جبکہ سول انجینئرکا کام ہوتا ہے ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے لیے ان کے’ ٹارگٹ ‘یعنی عمارتیں بنانا۔ سائنس دانوں کی طرح انجینئر بھی ایک انوکھی قوم ہوتی ہے۔ ایک مثبت آدمی کو آدھا گلاس پانی دکھاؤ تو بولے گا کہ آدھا بھرا ہوا ہے۔
وہی گلاس ایک منفی انسان دیکھے گا تو بولے گا کہ آدھا خالی ہے لیکن اگر ایک انجینئر کو دکھاؤ تو بولے گا کہ گلاس ٹھیک نہیں بنایا گیا۔ اس کو اس سے آدھے سائز کا بنانا چاہیے تھا۔ اور اسے جاب مل گئی عابد کافی عرصے سے بہت پریشان تھا اور گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر علیحدہ رہ رہا تھا۔ برا وقت چل رہا تھا کہ اس کی اپنے باس سے بھی لڑائی ہو گئی اور جاب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ کافی دنوں سے وہ ایک سستے سے ہاسٹل میں زندگی بسر کر رہا تھا اور اپنے کپڑے تک خود دھو رہا تھا۔ ایک دن اس کے باس کو خبر ہوئی کہ اس کے حالات اتنے پتلے ہیں کہ بیچارہ گلیوں سڑکوں کی خاک چھان رہا ہے اور اسے رہ رہ کر عابد کا خیال آنے لگا کہ بیچارہ اللہ جانے کیسے گزارہ کر رہا ہو گا۔ اس نے عابد کو آفس میں بلوایا اور اسے بتایا کہ وہ پھر سے اپنی جاب شروع کر سکتا ہے۔
عابد بہت خوش ہوا۔ اس نے عابد کو سپلائیز کے لیے کچھ پیسے دیے اور بولا کہ سامان لے کر سیدھا آفس آ جائے۔ عابد کی نیت خراب ہو گئی اور اس نے وہ سارے پیسے اپنی ذاتی اشیاء خریدنے پرخرچ کر دیے۔ جب وہ رات تک آفس نہ لوٹا تو اس کے باس کو اس پر شدید غصہ آیا۔ وہ سمجھ گیا کہ عابد اتنا غیر ذمہ دار ہے پھر پیسے کہیں ضائع کر دیے ہوں گے ۔ لیکن وہ ایک نیک آدمی تھا اس نے عابد کو اگلے دن فون کیا، ڈر کے مارے عابد اس کی کوئی کال نہیں اٹھا رہا تھا۔
لیکن اس کا باس اسے روز کال کرتا رہا اور اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ اس بے وقوف کو اپنی زندگی برباد نہیں کرنے دینی۔ اللہ واسطے اس نے عابد کو پھر سے آفس بلایا اور اس سے ان پیسوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور عابد کو مزید پیسے دے کر اس پر اعتبار کر کے اس کو سپلائیز لانے کے لیے بھیج دیا۔ عابد بہت شرمندہ ہوا اور اس کا ضمیر اسے مسلسل ملامت کر رہا تھا، اس نے جا کر سارا ضروری سامان خریدا اور آفس وقت پر پہنچ گیا۔ اس کی اس دفعہ کی کارکردگی دیکھ کر اس کا باس بہت خوش ہوا اور سمجھ گیا کہ عابد اب اپنی اصلاح کی راہ پر گامزن ہے اور آئندہ صرف اپنی بہتری کی سعی کرے گا۔
کہتے ہیں کہ اللہ اس پر رحم کرتا ہے جو اس کی مخلوق پر رحم کرتے ہیں۔اپنے دل کو کبھی سخت نہ کرو اور دوسرے لوگوں سے کبھی بھی نا امید مت ہو۔ اکثر وہ بچے جن کو گھر والے ہر وقت پابندیوں میں جکڑے رکھتے ہیں اور گھر کی چار دیواری میں قید رکھتے ہیں، جب ان کو موقع ملتا ہے تو وہ شدید ترین بغاوت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی کے برعکس جو لوگ اپنے بچوں کو مکمل آزادی دیتے ہیں، ان کے بچے ہر طرح کا غلط کام ہوتے دیکھ دیکھ کر خود ایسی چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جب آپ یہ جانتے ہیں کہ کسی اور نے آپ پر اعتبار کیا ہوا ہے تو آ پ کا ضمیر آپ کو راہ سے ہٹنے نہیں دیتا۔ یہ ایک عام سی بات ہے کہ ا نسان جس سے بہت امیدیں لگاتا ہے، وہ اس کی امیدوں پر ہمیشہ پورااتر تا ہی ہے۔لوگوں کی غلطیوں کو درگزر کرنا سیکھیں اوریاد رکھیں کہ اللہ محسن کو بہت پسند کرتا ہے۔