پریشانی ختم کرنے کا وظیفہ

697

اسلام علیکم ناظرین امید کرتے ہیں کہ آپ سب اللہ کے فضل کرم سے خیریت سے ہوں گے۔ اور خوشحال زندگی گزار رہے ہوں گے اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کے نیک اور جائز مقاصد پورے فرمائے اور تکلیف دور فرمائے اور ہمیں پانچ وقت کی نماز کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے میرے بھائیو اور بہنوں زندگی میں غم اور پریشانیاں تو ہرانسان کو آتی ہیں کبھی بھی ان غموں اور پریشانیوں سے گھبرانا نہیں ہے چاہیے جب کوئی غم آئے کوئی پریشانی آئے تو اپنا سارا غم اپنا سارا دکھرا اللہ کو سنائیں اسی طرح غموں اور پریشانیوں کے لیے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں سورہ کہف میں فرمایا اللہ کو پکارو اس کے صفاتی ناموں کے ساتھ اسی طرح اللہ تعالی کے دو صفاتی نام یا قادر یا نافع جو بڑا اثر رکھتے ہیں جو شخصدل کی گہرائیوں سے ان ناموں کو پڑھے گا انشاءاللہ تعالی ہر حاجت پوری ہوگی تو ناظرین جب بھی کوئی پریشانی آئے کوئی مسئلہ اچانک کوئی مصیبت آجاتی ہے تو یہ دو نام یا قادر یا نافع فورا اس کا ورد شروع کر دیں انشاء اللہ تعالی ناظرین اس کے کرنے سے کوئی بھی پریشانی ہوگی کوئی بھی غم ہوگا کوئی بھی تکلیف ہوگی انشاء اللہ تعالی فورا دور ہو جائی گی مگر پریشان نہیں ہونا چاہیے گھبرانا نہیں چاہیے کوئی بھی غم کوئی بھی پریشانی آئے تو فورا یا قادر یا نافع کا ورد شروع کر دینا چاہیے انشاءاللہ کوئی بھی حاجت ہوگی پوری ہو جائے گی

اہل مغرب نے اسلام میں خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت پروپیگنڈا کر رکھا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جس طرح کے حقوق اسلام نے خواتین کو دیئے ہیں اس کا تصور دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں پایا جاتا۔

قرآن و حدیث کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہترین خاوند اسی شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنی اہلیہ کی تمام ضروریات اپنی حیثیت کے مطابق پوری کرتا ہے۔

اسلام میں عورت کے حقوق کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ مرد کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ چاہے تو اپنی اہلیہ کے اخراجات اٹھائے اور چاہے تو اس پر ہی اِن کا بوجھ ڈال دے، بلکہ اس پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے اخراجات کا مناسب طور پر اہتمام کرے،

البتہ اسے یہ گنجائش بھی دی گئی ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق جتنا ممکن ہو خرچ کرے۔ خصوصاً جب کوئی خاتون بچے کی پرورش کر رہی ہو تو اس کی تمام ضروریات کا بہترین ممکن طور پرخیال رکھنے کا حکم دیا گیاہے۔

اسلام نے گھریلو مسائل کے بطریق احسن حل کے لئے یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ محدود ذرائع والا خاوند اپنی اہلیہ پر اپنے محدود ذرائع کے مطابق اخراجات کرے اور جو صاحب حیثیت ہے اس پر لازم قرار دیا گیا ہے

کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کھل کر خرچ کرے۔ یعنی مرد بخل سے کام نہ لے بلکہ جہاں تک اس کی گنجائش ہو اہلیہ کی جائز ضروریات کے لئے بخوشی خرچ کرے